دو دریاؤں کے درمیان پیاسے لوگ
کچھ سال پہلے تک ضلع مہمند میں وافر مقدار میں پانی موجود تھا، جو پینے اور آبپاشی کے لیے کافی تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پانی کا سنگین بحران پیدا ہوا، جس کی وجہ سے ضلع مہمند کی بڑی آبادی متاثر ہورہی ہے۔ گرمیوں کے موسم میں یہ مسئلہ زیادہ شدت اختیار کر جاتا ہے ۔
"بعض علاقوں میں لوگ پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے پیسوں پر ٹینکرز کے زریعے پانی لاتے ہیں، جس کی قیمت تین ہزار سے چار ہزار تک ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض علاقوں میں گھر کے استعمال کیلئے خواتین دور دراز علاقوں سے مٹکو/برتنوں کے زریعے اور بچے گدھا گاڑیوں پر پانی لاتے ہیں۔ یہ کہنا ہے سماجی کارکن میر افضل خان کا۔”
پانی کی کمی کی وجہ سے یہاں کی خواتین بھی بہت متاثر ہورہی ہے اسی حوالے سے فضا رشید جو اپنے گاؤں کی پہلی بارہویں پاس لڑکی ہے کہتی ہے کہ باقی خواتین کی طرح وہ بھی گھر کی ضرورت کیلئے باہر سے مٹکے میں پانی لاتیں ہیں جس کی وجہ سے انکی صحت کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی متاثر ہورہی ہے۔
پانی کی قلت کی وجہ سے علاقے میں زراعت بھی متاثر ہورہی ہے جس کی وجہ سے بےروزگاری میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے مقامی کسان بشیر خان کہتے ہیں کہ جب یہاں پانی کا مسئلہ اتنا سنگین نہیں تھا تو وہ زمینداری کرتے تھے جو انکا زریعہ معاش تھا اس کے علاوہ انکے ساتھ کھیتوں میں مقامی لوگ بھی مزدوری کرتے تھےلیکن اب ان میں سے زیادہ تر نوجوان باہر سفر کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
وزنی کام کرنے کی وجہ سے انکی ذہنی و جسمانی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ میں نفسیات پڑھانے والی پروفیسر طاہرہ جبین کا کہنا ہے کہ اکثر زیادہ کام ذہنی تھکن کا باعث بن سکتا ہے، خاص طور پر وہ خواتین جو زیادہ وزنی کام کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ زیادہ کام کی وجہ سے انکی دیکھ بھال کے لیے وقت کی کمی تناؤ اور جسمانی توڑ پھوڑ میں اضافہ کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اکثر ایسی خواتین جو ہر وقت کام میں مصروف ہوتی ہیں انکی سماجی زندگی بھی کافی متاثر ہوتی ہے ۔
ضلع مہمند میں زیادہ تر لوگوں کا زریعہ معاش کھیتی باڑی ہوا کرتی تھی لیکن پانی کی کمی کی وجہ سے وہ بھی کافی حد تک متاثر ہوئی ہے ۔ 70 فیصد سے زیادہ آبادی پانی کی کمی کا سامنا کر رہی ہے اور پانی کی سطح میں کمی ایک شدید مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
مہمند قبائلی ضلع پاکستان کے ان پانچ اضلاع میں شامل ہے جہاں پانی کی سطح روز بروز کم ہو رہی ہے پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹرز – 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق مہمند ان اضلاع میں شامل ہے جہاں گزشتہ پانچ سالوں میں ساٹھ میٹر سے زیادہ پانی کی سطح میں کمی آئی ہے علاقے کے مشر حاجی لعل فقیر کہتے ہیں کہ یہاں بہار کے موسم میں بہت خوبصورتی ہوتی تھی، پشاور، چارسدہ اور مردان سے لوگ سیر کیلئے آتے تھے۔ چشموں کا پانی اتنا صاف اور شفاف تھا کہ لوگ اسے پینے کے لیے استعمال کرتے تھے۔
اعجاز الحق، ایگزیکٹو انجینئر پی ایچ ای (پبلک ہیلتھ انجینئرنگ) کا کہنا ہے کہ "مہمند میں پانی کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے، کیونکہ یہاں پانی کی سطح 300 سے 500 فٹ تک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلع مہمند میں پانی کی سطح کی کمی کی وجوہات میں زیر زمین پانی کا زیادہ نکالنا، موسمیاتی تبدیلی، بارشوں کی کمی، پانی کے دوبارہ بھرنے کی منصوبہ بندی کی کمی اور شمسی پینل کے ذریعے پریشر پمپ کا زیادہ استعمال شامل ہیں۔ فاٹا انظام سے پہلے قبائلی اضلاع میں زیادہ تر چیزوں کی رجسٹریشن نہیں ہوتی تھی تاہم 2018 میں فاٹا مرجر کے بعد کافی چیزوں کی رجسٹریشن کا عمل شروع ہے جس کیلئے حکومتی سطح پرابھی تک کوئی حکمتی عملی نہیں ہوئی ہے۔
ایم این اے ضلع مہمند ساجد خان نے حکومتی اقدامات کے حوالے سے بتایا کہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے حکومت مختلف منصوبوں پر غور کررہی ہے، جن میں تحصیل یکہ غنڈ سے غلنئ پانی کی اسکیم، مہمند ڈیم سے تحصیل حلیمزئی کیلئے پانی کا منصوبہ ، تحصیل حویزائی اور بیزائی کیلئے دریا کابل سے نہر کا بندوبست کرنا جس کی منظوری ہوچکی ہے اور پنڈالی کے لیے نہر شامل ہے۔ یکہ غنڈ سے تحصیل حلیمزئی تک کے منصوبہ کا کام کسی حد کام تک ہوچکا ہے جس سے غلنئی اور گردونواح کے لوگ مسفید ہورہے ہیں۔ دریا کابل سے نہری منصوبہ جس سے تحصیل خوائی، بائیزئی کے پینے کے پانی کے ساتھ ساتھ زرعت کا کام بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مہمند ڈیم سے تحصیل پنڈلی تک کے منصوبے سے وہاں کے لوگ مستفید ہوسکتے ہیں اور زراعت کے کام بھی لے سکتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ مہمند ضلع میں دو بڑے ڈیم ( مہمند اور وارسک) اور پانچ چھوٹے ڈیم ہیں۔ ماہر ماحولیات اور چاندہ گرلز کالج کی پرنسپل ماہ روح ظاہر کا کہنا ہے کہ اگر بروقت مناسب احتیاطی تدابیر نہ اپنائی گئیں تو یہ مکمل پانی کی کمی کا باعث بن سکتی ہیں، اس لیے حکومت، این جی اوز، شہریوں اور میڈیا کو مل کر اس مسئلے کے حل کے لیے کام کرنا چاہیے۔
Disclaimer
We have made every effort to ensure the accuracy of the text and content on this website. Individualland and Friedrich Naumann Foundation do not accept responsibility for any unintentional omissions. We appreciate accurate information to enhance our work. The articles on this website are supported by Friedrich Naumann Foundation for Freedom Pakistan, but the views expressed here do not necessarily represent the views of the Friedrich Naumann Foundation for Freedom.