دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل چھانگا مانگا تباہی کے دہانے پر

ایسٹ انڈیا کمپنی کے برصغیر میں راج کے دوران ریلوے لائن بچھائی گئی، اس وقت ٹرین کے انجن کا ایندھن لکڑی تھا اور اس ایندھن کے حصول کے لیے جنگل لگانے کا فیصلہ کیا گیا اور ُاس وقت دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل چھانگا مانگا 1866میں لگانا شروع کیا گیا۔ شروع میں بیشتر حصہ میں شیشم لگائی گئی بعد ازاں تُوت(شہتوت)، سمبل، پاپلر و دیگر کے درخت لگانابھی شروع کیے گئے۔ 

یہ جنگل نہ صرف ایندھن و دیگر ضروریات پوری کرتا بلکہ ایکو سسٹم میں گرین ہاؤس گیسز کو جذب کر کے آلودگی کو کم کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا تھا۔ اس جنگل کا کل رقبہ 12510ایکڑ ہے جو لاہور سے تقریبا 60کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع قصور میں تحصیل چونیاں کا حصہ ہے۔

گذشتہ چند سالوں سے لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار کیا جارہا ہے اس کی ایک بنیادی وجہ لاہور کے اردگرد بڑھتی ہوئی آبادی اور ہاؤسنگ سوسائٹی ہیں جو زیادہ تر درخت کاٹ کر بنائی جارہی ہیں لاہور کے قریب ہی چھانگا مانگا جنگل ہے جو مسلسل کٹائی کا شکار ہے ایک اندازے کے مطابق اب گھنا جنگل تقریبا ختم ہوچکا ہے گذشتہ دس سالوں میں جس تیزی سے جنگل کو کاٹا گیا اس تیزی سے لاہور و گردونواح میں آلودگی میں اضافہ دیکھنے میں نظر آیا کیونکہ ایک طرف جنگل کی کٹائی، دوسری طرف ہاؤسنگ سوسائٹی کے قیام نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ شجر کاری مہم میں نئے پودے لگائے جارہے ہیں لیکن وہ کب درخت بنے گے یا اس سے پہلے ہی ٹمبر مافیا کے ہاتھوں فروخت ہوجائیں گے یہ ایک سوال ہے؟اس وقت جنگل تقریبا 80فیصد تباہ ہوچکا ہے باقی 20فیصد درخت صرف باؤنڈری وال پر نظر آتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ہر ایک منٹ میں دنیا میں 2400درخت کاٹے جارہے ہیں، گذشتہ پانچ سالوں میں چھانگا مانگا میں ہر آنے والی حکومت نے شجر کاری مہم میں سنجیدگی سے حصہ لیا اور لاکھوں نئے پودے لگائے گئے ہیں لیکن اس سے چار گنا تیزی سے جنگل کو کاٹا جارہا ہے جس میں محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے ٹمبر مافیا نے دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل کو اب گراؤنڈ میں تبدیل کردیا ہے جس کے اردگرد درختوں کی باڑ لگا دی ہے گذشتہ دو سالوں میں لکڑی چوری کے خلاف ریکارڈ ایف آئی آرز درج ہوچکی ہیں مقامی لوگوں کے مطابق سرکاری کھاتے کو پورا کرنے کے لیے یہ آسان حل ہے یا درختوں کی کٹائی کے بعد جنگل میں آگ لگادی جاتی ہے اور بیش قیمت شیشم کے درخت بیچ دیے جاتے ہیں۔

2010کے بعد اب تک درجنوں بار تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں محکمہ جنگلات کے افسران جنگل کی تباہی کا کبھی ذمہ دار محکمہ آبپاشی کبھی مقامی لوگوں کو ٹھہراتے ہیں لیکن مقامی لوگ اس جنگل کی تباہی کا ذمہ دار محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کو ٹھہراتے ہیں ان کے مطابق نہ تو پانی کی کمی ہے اور نہ ہی فنڈز کی اگر ضرورت ہے تو ایک ایماندار افسر کی۔سابقہ وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کے دور میں اس جنگل کی بقا کے لیے اقدامات کیے گئے اور جنگل کی تباہی میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی بھی کی گئی لیکن سابقہ روایت کے مطابق چند دنوں بعد نہ صرف افسران کو دوبارہ بحال کردیا گیا بلکہ ترقی بھی دی گئی۔ 

مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ ”سیاسی مافیا”جو اس ٹمبر مافیا اور محکمہ جنگلات کے کرپٹ اہلکاروں کی پشت پناہی کر رہا ہے جنگل کو دوبارہ آباد نہیں ہونے دے گا اور نہ ہی اب اس کی بقا ممکن ہے کیونکہ تحقیقاتی ٹیم میں شامل ممبران مقامی لوگوں کو شامل تفتیش نہیں کرتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو انہیں اہلکاروں کے رشتہ دار، دوست کو شامل کیا جاتا ہے اور یوں سالوں سے تحقیقاتی کمیٹیاں تفتیش کرتی ہیں اتنا بڑی رقم محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کو تنخواہ کی مد میں خرچ کرنے کے باوجود آکر جنگل کیوں تباہ ہورہا ہے مافیا قانون نافذ کرنے والے اداروں اور محکمہ جنگلات کے حکام کی دسترس سے باہر ہے کیونکہ وہ خود بھی اس پیسہ کمانے کے عمل میں ملوث ہیں۔ صبح سے لے کر شام تک رات کے وقت بھی غیر قانونی لکڑی کا مسلسل اخراج اس چوری کی واردات میں قانون سازوں کی رضامندی ظاہر کرتا ہے۔ یہ یہاں ایک منافع بخش کاروبار ہے اور محکمہ جنگلات کے اہلکار مبینہ طور پر خود اس کاروبار سے پیسہ کما رہے ہیں۔ چوری کے اس کھیل کی وجہ سے محکمہ جنگلات کے ملازمین اب یہاں کے کروڑ پتی ہیں۔ 

سیاحوں کے لیے یہاں وائلڈ لائف پارک، جھیل، چڑیا گھر بھی بنایا گیا ہے سیاحوں کی سیر کے لیے ایک ریل ٹریک کا بھی آغاز کیا گیا تھا جو شروع میں تقریبا پورے جنگل کی سیر کرواتا تھا اب چند میٹر تک محدود کردیا گیا ہے کیونکہ ریلوے ٹریک کی لائن بھی اکھاڑ کر فروخت کردی گئی ہے جن لوگوں نے ریلوے لائن نہیں چھوڑی،کیا وہ جنگل کی بیش قیمت لکڑی چوری کرنے سے باز آئیں گے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ جنگل کی تباہی میں شامل ان تمام افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے جو نہ صرف لکڑی چوری جیسے گھناؤنے جرم میں شامل ہیں بلکہ ماحولیاتی بگاڑ میں بھی شامل ہیں جو نہ صرف ہزاروں بلکہ کروڑوں لوگوں کی زندگی کو متاثر کر رہا ہے

Disclaimer

We have made every effort to ensure the accuracy of the text and content on this website. Individualland and Friedrich Naumann Foundation do not accept responsibility for any unintentional omissions. We appreciate accurate information to enhance our work. The articles on this website are supported by Friedrich Naumann Foundation for Freedom Pakistan, but the views expressed here do not necessarily represent the views of the Friedrich Naumann Foundation for Freedom.

Similar Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے