حیدرآباد میں تفریحی مقامات کی کمی اور شہری صحت و خوشحالی پر اثرات

عید الفطر 2024 پر ایک بچی لطیف آباد نمبر 8 کے بیبی افضل گراؤنڈ میں موجود پانی کی ٹینک میں ڈوب کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھی تھی جو کہ وہاں عید پر اپنے خاندان کے ساتھ کھیلنے آئی تھی۔ یہ انتظامیہ کی نااہلی یا بے حسی ہی سمجھی جا سکتی ہے کہ اتنا وقت گزرنے کے بعد بھی آج وہ ٹینک اسی طرح موجود ہے اور وہاں آنے والے بچوں کی جان کو خطرے میں ڈال رہا ہے کہ کب کوئی بچہ لاپرواہی میں اس میں ڈوب جائے۔

حیدرآباد پاکستان کا آٹھواں اور سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ دوسرے چھوٹے شہروں کی طرح حیدرآباد کی بھی یہ بدقسمتی ہے کہ کراچی سے تین گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہونے کی وجہ سے نہ صرف میڈیا میں کم نمائندگی ملتی ہے بلکہ یہاں کے رہائشیوں کی ضروریات بھی نظرانداز ہوتی رہی ہیں۔ کیونکہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ تمام سہولیات رکھتا ہے، اس لیے حیدرآباد جیسے شہر، جو صرف 200 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، ترقی یافتہ ہونے اور میڈیا میں اپنے مسائل کی رپورٹنگ حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق حیدرآباد کی آبادی   2 ملین سے زائد ہے جو کہ 9 نو ٹاؤنز پر مشتمل ہے۔پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے ڈیٹا کے مطابق، حیدرآباد کی آبادی زیادہ تر کم آمدنی والے اور درمیانے طبقے پر مشتمل ہے. ۔ زائد آبادی، ناقص انفراسٹرکچر، کم آمدنی، پبلک ٹرانسپورٹ، ماحولیاتی چیلنجز کے ساتھ ساتھ تفریحی مقامات، عوامی پارکس اور سبز جگہیں بھی متاثر ہوتی جا رہی ہیں۔

حیدرآباد میں اچھی طرح سے دیکھ بھال کیے جانے والے پارکس نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف شہریوں کی جسمانی صحت متاثر ہو رہی ہے بلکہ ذہنی صحت پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں”۔یہ کہنا ہے لطیف آباد حیدرآباد کے رہائشی ثناء اللہ کا، جو روزانہ چہل قدمی کے لیے پارک آتے ہیں۔ 

یہاں کا اوسط گھرانہ ماہانہ آمدنی کے لحاظ سے قومی سطح پر درمیانے یا نچلے درمیانے طبقے میں شمار ہوتا ہے۔  آمدنی زیادہ تر چھوٹے کاروبار، روزانہ اجرت یا سرکاری ملازمتوں پر منحصر ہوتی ہے۔ عوامی زندگی کی بات کی جائے تو یہاں چند ریستوران ہی موجود ہیں، جنہیں ہر طبقے کے لوگ افورڈ نہیں کر سکتے۔ ایسے میں رہائشی اکثر عوامی پارکس کا رخ کرتے ہیں تاکہ اپنی فیملیز کے ساتھ پُرفضا ماحول میں وقت گزار سکیں اور بچوں کے لیے تفریح کا انتظام بھی ہو سکے۔ 

لیکن ان میں سے زیادہ تر تفریح گاہ بدنظمی کا شکار ہیں، جن میں نہ مناسب جاگنگ ٹریکس موجود ہیں، اور صفائی کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ سندھ حکومت کی تفریحی اور پارکنگ کے محکمے کی رپورٹس میں حیدرآباد میں عوامی پارکس کی زمین کی دستیابی کا ذکر موجود ہے۔ ان میں یہ بتایا گیا ہے ، کہ شہر میں تقریباً 30 مقامات عوامی پارکس اور گراؤنڈز کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔  مگر ان کی دیکھ بھال اور ترقی کے لیے وسائل کی کمی ہے۔ نہ ہی مناسب سٹریٹ لائٹس ہیں، اور اگر بچوں کے لیے جھولے موجود بھی ہیں تو وہ بھی اکثر خستہ حالت میں ہیں۔

اگر بات کی جائے ان کی دیکھ بھال اور فنڈز کی تو یہ پارکس کے محکمے کی ذمہ داری میں آتا ہے۔ البتہ شہر کے کچھ بڑے علاقوں میں موجود پارکس جیسے عسکری پارک، حسین آباد پارک، ڈیفنس، کینٹونمنٹ اور ضیاء الدین پارک عید گاہ کی حالت قدرے بہتر ہے اور وقتاً فوقتاً ان کی دیکھ بھال بھی کی جاتی ہے۔  لیکن زیادہ تر پارکس، جو رہائشی علاقوں میں واقع ہیں، جیسے عائشہ پارک، بی بی افضل گراؤنڈ پارک، نرسری پارک، اور مصطفیٰ گراؤنڈ، کے ساتھ ساتھ حیدرآباد کی پہچان رانی باغ بھی موجود ہے، جو تقریباً 47.2 ایکڑ کی وسیع زمین پر پھیلا ہوا ہے۔ ، وہ بھی خستہ حالت کا شکار ہیں۔ کچھ پارکس تو کچرے کے ڈھیر کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ باونڈری وال سے لے کر سٹریٹ لائٹس، گھاس کی کٹائی، واش روم اور پان کی عدم دستیابی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

لطیف آباد حیدرآباد کی رہائشی سونیا کا مطالبہ ہے کہ رہائشی پارکس میں مناسب سہولیات فراہم ہونی چاہئیں اور وقتاً فوقتاً ان کی دیکھ بھال کا بھی خیال رکھنا چاہئے کیونکہ ان جگہوں پر وزیٹرز کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور ان کے گھروں کے قریب ہونے کی وجہ سے خواتین کو بھی آسان رسائی ہوتی ہے۔ لیکن شوپیس کے طور پر موجود مین شاہراہوں پر تو پارکس کو ٹھیک کر دیا جاتا ہے لیکن اندرون شہر اور رہائشی علاقوں میں ایسی کوئی سہولت موجود نہیں۔

یہ مسائل حیدرآباد کی عوام سے لے کر انتظامیہ تک سبھی کے علم میں ہیں، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ تو ان پر کوئی تازہ تحقیق کی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں میڈیا میں جگہ ملتی ہے۔ ان سنگین مسائل کا صحت کے محافظ اداروں کی بے حسی کی نذر ہونا دل خراش ہے، لیکن میڈیا کے لیے ان موضوعات کو کور کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ یہ ایک پیچیدہ اور حساس معاملہ ہے جس پر بات کرنا اکثر مشکل بنا دیا جاتا ہے، نتیجتاً یہ مسائل نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں حیدرآباد کے لیے تفریحی اور سبز جگہوں کی شدید ضرورت ہے، لیکن بدقسمتی سے ان میں اضافہ ہونے کے بجائے جو چند موجود ہیں وہ بھی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔

دانیا، لطیف آباد کی رہائشی ہیں جو کہ اپنے قریبی پارک میں روزانہ چہل قدمی کے لیے آتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں ٹریکس ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے اکثر جاگنگ کے دوران وزیٹرز کے پاؤں مڑتے اور انہیں گرتے دیکھا ہے۔ پارک میں موجود ٹوٹی ہوئی بینچز کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ایک تو بینچز کی تعداد ناکافی ہے، اس کے ساتھ ساتھ جو موجود ہیں وہ بھی ٹوٹی پھوٹی ہیں اور گھاس کا حال بھی بیٹھنے کے قابل نہیں، نہ ہی صحیح کٹائی ہوتی ہے، کچرا بکھرا پڑا ہے اور کیڑے مکوڑے بھی موجود ہیں، صفائی اور اسپرے نہ ہونے کی وجہ سے۔

دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ماحولیاتی ایمرجنسی جیسی صورتحال ہے۔ اس پر عوامی سطح پر حکومت اور نجی اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں، لیکن اب باتوں سے زیادہ عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ حیدرآباد کی رہائشی نور العین کا شکوہ ہے کہ ہم مین اسٹریم میڈیا میں تو دارالحکومتوں کی ہوا، پانی کے معیار اور ان کے ماحولیاتی چیلنجز کے بارے میں سن لیتے ہیں، لیکن چھوٹے شہروں میں رہنے والے باشندوں کا کیا؟ کیا انہیں ماحولیاتی چیلنجز سے خطرات لاحق نہیں؟ یا ان کی حیاتیاتی ساخت بڑے شہروں میں رہنے والوں سے مختلف ہے؟

ذہنی صحت پر ماحول کی خرابی کے نفسیاتی اثرات:

حیدرآباد میں ناقص فضلہ مینجمنٹ کی وجہ سے فضائی آلودگی بڑھ چکی ہے جو انسانی اور ماحولیاتی صحت دونوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ شہری مراکز اس سے بری طرح متاثر ہیں۔ پاکستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (Pak-EPA) اور سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کی رپورٹس کے مطابق، حیدرآباد میں ٹھوس فضلہ کو ٹھکانے لگانے کا موثر نظام نہیں ہے، جس کی وجہ سے کچرا کھلے عام جلایا جاتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف زہریلی گیسوں کا اخراج کرتا ہے بلکہ فضائی آلودگی کو بھی شدید بڑھا دیتا ہے، جو شہری صحت اور ماحولیاتی نظام دونوں کے لیے خطرناک ہے۔ انڈس ہسپتال کے مطابق، حیدرآباد میں سانس کی بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے، اور ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ فضائی آلودگی ہے جو ناقص فضلہ مینجمنٹ سے پیدا ہوتی ہے۔ امن اللہ میہر، شعبہ ماحولیاتی سائنس، یونیورسٹی آف سندھ کے سربراہ، کہتے ہیں کہ:  بہتر ماحول ذہنی صحت پر مثبت اثر ڈالتا ہے، اور ناقص فضلہ مینجمنٹ اور ماحولیاتی حالات مختلف ذہنی مسائل کا باعث بنتے ہیں جن میں چڑچڑاپن، دباؤ، ڈپریشن اور سانس لینے میں دشواری شامل ہیں۔ ذہنی صحت کے مسائل کو عام طور پر صحیح طریقے سے نہیں سنا جاتا، لیکن ماحولیاتی بگاڑ مجموعی اور ذہنی صحت کے مسائل کو مزید بڑھا دیتا ہے۔

سماجی رویے پر اثرات:

تفریحی سرگرمیوں کے لیے موزوں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے شہری صرف موبائل فون اور ٹی وی اسکرینز تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں، اور اس میں نسل اور عمر کا کوئی فرق نہیں ہے۔ جس سے وہ عدم سماجی بھی ہوتے جا رہے ہیں، اور خاص طور پر نوجوان نسل ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتی ہے جو ان کی ذہنی صلاحیتوں کے لیے ایک بند گلی تصور کی جاتی ہیں۔ کیونکہ اگر کھیل کے میدان اور عوامی پارکس ہوں تو جسمانی سرگرمیاں اور کھیلنے کا رجحان بھی پیدا ہوگا، جو شہریوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر مثبت اثر ڈالے گا۔ اس دعوے کی حمایت میں متعدد تحقیقی مطالعات اور رپورٹس موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ تفریحی سرگرمیوں اور کھیل کے میدانوں کی عدم موجودگی کا شہریوں کی صحت اور معاشرتی رویوں پر منفی اثر پڑتا ہے:

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق، جسمانی سرگرمی کی کمی سے نہ صرف جسمان صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ دماغی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کھیلوں اور جسمانی سرگرمیوں کی کمی، خاص طور پر نوجوان نسل میں، ذہنی تناؤ اور عدم سماجی رویوں کا باعث بن سکتی ہے۔

              آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں یہ نتیجہ نکالا گیا کہ نوجوان جب جسمانی سرگرمیوں کے بجائے سکرین پر و گزارتے ہیں، تو ان میں ذہنی صلاحیتوں کا تنزّل دیکھا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، جسمانی سرگرمی کی کمی سے ان کے سوشل انٹریکشنز میں بھی کمی آتی . پاکستان میں مقامی تحقیق کے مطابق، تفریحی مقامات اور عوامی پارکس کی کمی نوجوانوں کو موبائل فونز اور دیگر سکرین بیسڈ سرگرمیوں میں ملوث کرتی ہے، جس کے نتیجے میں ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔

یہ شواہد اس بات کو مضبوط بناتے ہیں کہ تفریحی اور جسمانی سرگرمیوں کے لیے مناسب مواقع کی عدم دستیابی سے نوجوان نسل میں ذہنی و جسمانی صحت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں، جو ان کے مستقبل پر بھی اثرانداز ہو سکتے ہیں۔

آمنہ، جامعہ سندھ میں فزیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی فائنل ایئر کی طالبہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اکثر پارکوں اور کھیل کے میدانوں میں مردوں کا غلبہ ہوتا ہے، خواتین کھلاڑیوں کو کھیلنے کے لیے عوامی پارکوں تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سی طالبات عملی طور پر اس فیلڈ کو جاری نہیں رکھ پاتیں اور یا تو ڈگری لے کر گھر بیٹھ جاتی ہیں یا پھر فیلڈ بدل لیتی ہیں۔

عمران علی عباسی، ڈپٹی ڈائریکٹر ٹیکنیکل سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی حیدرآباد نے حیدرآباد کے ماحولیاتی چیلنجز کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ فضائی آلودگی حیدرآباد کا تیسرا بڑا ماحولیاتی مسئلہ ہے، پانی کی آلودگی اور صفائی کے بعد۔ ایئر کوالٹی انڈیکس کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سیپا موسمیاتی محکمہ کے ڈیٹا کو استعمال کرتا ہے، البتہ اب ہم نے ایک ٹیم بنائی ہے جو خراب ایئرکوالٹی انڈیکسالبتہ اب ہم نے ایک ٹیم بنائی ہے جو فضائی آلودگی کے خراب انڈیکس کو مانیٹر کرے گی اور وہ رپورٹ آگے بھیجی جائے گی۔ سیپا کے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سیپا ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے عوام میں آگاہی کا کام کرتا ہے۔ 

حیدرآباد کی حکمران جماعتوں، جن میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی شامل ہیں، کے 2024 کے منشور پر نظر ڈالی جائے تو ماحولیاتی حوالے سے ضلعی سطح پر کوئی واضح پالیسی نظر نہیں آتی۔ البته، بلند و بالا دعوے ضرور موجود ہیں، جیسے کہ سولر پارکس سے لے کر کلائمیٹ فنانس تک.

 اگلے انتخابات میں سیاسی مفادات کے لیے عوام سے دوبارہ رابطہ کیا جائے گا، جبکہ سرکاری اداروں سے بات کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ اتنے خوف زدہ ہوتے ہیں کہ میڈیا کا نام سنتے ہی کہتے ہیں، "ہمیں بات کرنے کی اجازت نہیں” اور فوراً فون بند کر دیتے ہیں۔ اس صورتحال میں شہر کے عوام کہاں جائیں؟

Disclaimer

We have made every effort to ensure the accuracy of the text and content on this website. Individualland and Friedrich Naumann Foundation do not accept responsibility for any unintentional omissions. We appreciate accurate information to enhance our work. The articles on this website are supported by Friedrich Naumann Foundation for Freedom Pakistan, but the views expressed here do not necessarily represent the views of the Friedrich Naumann Foundation for Freedom.

Similar Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے