باورچی خانے میں کام کرتی خواتین پرماحولیاتی تبدیلی کے اثرات

راولپنڈی کے ایک چھوٹے سے قصبے خصالہ میں رہنے والی گھریلو خاتون نسرین بی بی کو ہر موسم میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ھے۔ گرمیوں میں جب درجہ حرارت 46 ڈگری سے تجاوز کر جاتا ہے تو باورچی خانے میں کام کرنا نسرین بی بی جیسے خواتین کے لیے ہیٹ اسٹروک اور پانی کی کمی کے خدشات کو بڑھا دیتا ہے۔ گرمیوں میں ان کا باورچی خانہ جیسے ایک بھٹی بن جاتا ہے۔ سردیوں میں حالات اور بھی مشکل ہو جاتے ہیں۔ نسرین بی بی اپنے گھر کے باورچی خانے میں روایتی چولہا استعمال کرتی ہیں جس میں لکڑی اور گوبر کے اُپلے جلائے جاتے ہیں۔ چونکہ سردیوں میں گیس کی کمی ہوتی ہے، اس لیے انہیں یہ روایتی ایندھن استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اُپلوں کو جلانے کے لیے اکثر کیڑے مار ادویات یا دیگر زرعی کیمیکلز کا سہارا لیا جاتا ہے تاکہ آگ جلدی پکڑ سکے، جس سے دھواں اور زہریلے کیمیکلز کا اخراج ہوتا ہے، جو نسرین جیسی خواتین کی صحت پر منفی اثر ڈالتا ہے۔

اس مسئلے سے خاص طور پر گھریلو خواتین متاثر ہیں جو گرمی اور سردی دونوں موسموں میں باورچی خانے میں کام کرتی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں درجہ حرارت میں بے حد اضافہ کیا ہے جون 2017 میں تربت اور لاڑکانہ میں درجہ حرارت 53.8 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا جبکہ 2024 کی رپورٹ میں سندھ اور بلوچستان میں گرمی کی شدت میں اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ یہ تبدیلیاں گھریلو خواتین خاص طور پر کچن میں کام کرنے والی خواتین کے لیے صحت کے سنگین مسائل کا سبب بن رہی ہیں ۔

نسرین بی بی کا کہنا ہے کہ گرمیوں میں درجہ حرارت بڑھنے سے باورچی خانوں میں ایندھن کے استعمال کے دوران درجہ حرارت مزید بڑھ جاتا ہے جس کے باعث خواتین کو ہیٹ اسٹروک ، سر چکرانا اور بلڈ پریشر کم ہونے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سردیوں میں جب گیس کی سپلائی متاثر ہوتی ہے تو لکڑیوں کا استعمال خواتین کی صحت کے لیے خطرناک دھوئیں کا سبب بنتا ہے، جس سے سانس کی بیماریاں جیسے دمہ کا خطرہ اور آنکھوں کی جلن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق خواتین کو باورچی خانے میں وقفے وقفے سے پانی پینے کی عادت اپنانی چاہیے تاکہ پانی کی کمی سے بچا جا سکے۔ گرمیوں میں اگر ممکن ہو تو چھوٹے پنکھے استعمال کیے جائیں، یا باورچی خانے کے دروازے اور کھڑکیاں کھول کر ہوا آنے دی جائے۔ سردیوں میں ٹھنڈے پانی کی بجائے نیم گرم پانی استعمال کیا جائے اور لکڑیوں کے استعمال کی صورت میں دھوئیں سے بچنے کے لیے محدود وقت کے لیے کام کیا جائے۔

ماہرین کے مطابق خواتین کو ان موسمی اثرات سے بچانے کے لیے حکومتی سطح پر بھی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ حکومتی اقدامات کے تحت گھریلو خواتین کے لیے بہتر وینٹیلیشن، سستی توانائی کے وسائل، اور صحت کے حوالے سے بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ خواتین کو خاص طور پر باورچی خانوں میں موسمی شدت سے بچاؤ کے لیے تربیت دینا بھی اہم ہے، جس سے نسرین جیسی خواتین کو وقتی راحت حاصل ہو سکتی ہے۔

Disclaimer

We have made every effort to ensure the accuracy of the text and content on this website. Individualland and Friedrich Naumann Foundation do not accept responsibility for any unintentional omissions. We appreciate accurate information to enhance our work. The articles on this website are supported by Friedrich Naumann Foundation for Freedom Pakistan, but the views expressed here do not necessarily represent the views of the Friedrich Naumann Foundation for Freedom.

Similar Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے